مجھے سمیٹو
میں ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں
نہ جانے میں بڑھ رہا ہوں
یا اپنے ہی غبار سفر میں ہر پل اتر رہا ہوں
نہ جانے میں جی رہا ہوں
یا اپنے ہی تراشے ہوئے نئے راستوں کی تنہائیوں میں ہر لحظہ مر رہا ہوں
میں ایک پتھر سہی مگر ہر سوال کا بازگشت بن کر جواب دوں گا
مجھے پکارو مجھے صدا دو
میں ایک صحرا سہی مگر مجھ پہ گھر کے برسو
مجھے مہکنے کا ولولہ دو
میں اک سمندر سہی مگر، آفتاب کی طرح مجھ پہ چمکو
مجھے بلندی کی سمت اڑنے کا حوصلہ دو
مجھے نہ توڑو کہ میں گل تر سہی
مگر اوس کے بجائے لہو میں تر ہوں
مجھے نہ مارو
میں زندگی کے جمال اور گہماگہمیوں کا پیامبر ہوں
مجھے بچاؤ کہ میں زمیں ہوں
کروڑوں کروڑوں کی کائنات بسیط میں صرف میں ہی ہوں
جو خدا کا گھر ہوں
نظم
بیسویں صدی کا انسان
احمد ندیم قاسمی