رحم مادر سے نکلنا مرا بے سود ہوا
آج بھی قید ہوں میں
حکم مادر کو میں تبدیل کروں
ماں کی نفرت بھری آنکھوں سے کہیں دور چلا جاؤں میں
بے نیازی سے پھروں
پاپ کے کانٹے چن کر
روح ناپاک کروں
گیت شہوت کے ہوس کے سن کر
ذہن بے باک کروں
ایسے جیون کی ہے حسرت اب تک
پیار ...سب کہتے ہیں وہ پیار مجھے کرتی ہے
پیار کی راکھ تلے سویا پڑا ہوں کب سے
جھوٹ کہتے ہیں میں بیزار ہوا ہوں سب سے
پھر لپک اٹھے گا وہ شعلہ، پر امید ہوں میں
پیار کی راکھ تلے دب کے ہے جو دود ہوا
نظم
بیمار لڑکا
زاہد ڈار