پاگل سمجھا ہے کیا مجھ کو
ڈوب مروں میں
اور سب اس منظر سے اپنا دل بہلائیں
بچوں کو کاندھوں پر لے کر
اچک اچک کر مجھ کو دیکھیں
ہنسی اڑائیں
لاکھ مری اپنی وجہیں ہوں جاں دینے کی
لیکن پھر بھی
دل میں میرے بھی ہے وہ بے معنی خواہش
جاتے جاتے سب کی آنکھیں نم کرنے کی
میری سمجھ سے
اتنا حق تو ہے
جاں دینے والے کا دنیا والوں پر
شرکت کر لیں
وہ اس پل میں تھوڑا سا سنجیدہ ہو کر
جاں دینے آیا ہوں لیکن
یہ بتلا دوں
جان لڑا دوں گا میں جان بچانے میں گر
ایک تماشا دیکھنے والے کو بھی ہنستا دیکھا خود پر
لوٹ آؤں گا
کہہ دیتا ہوں
ایسا کچھ بھی اگر ہوا تو
بیچ بھنور سے لوٹ آؤں گا
نظم
بیچ بھنور سے لوٹ آؤں گا
شارق کیفی