مرے ہوؤں سے ڈرو نہیں
یہ کہا تھا تم نے
جو مر گئے
وہ زمیں کے اندر اتر گئے
ان مرے ہوؤں کی بھٹکتی پھرتی
خوشی غمی کے عذاب سہتی
نحیف روحوں سے ڈرنا کیسا
کہا تھا تم نے
نہیں
میں ڈرتا نہیں ہوں ان سے
بھٹکتی پھرتی
زمیں کا چکر لگاتی روحوں سے خوف کیسا
جو خود پتنگے کے کرب میں مبتلا ہوں ان سے
کسی کو خطرہ نہیں ہے کوئی
مگر میں ڈرتا ہوں ان کے ڈھانچوں سے
جو زمین میں اتر گئے تھے
زمیں کے پاٹوں میں پس گئے تھے
وہ خشک ڈھانچے کہ آج آسیب بن گئے ہیں
زمیں کے اندھے کنویں سے باہر نکل پڑے ہیں
نہیں یہ روحیں نہیں ہیں بھائی
یہ سب دھوئیں کے کثیف حلقے ہیں
بھوت ہیں ان مرے ہوؤں کے
جو سبز دھرتی کے گرد چکر لگا رہے ہیں
جو گرم بوجھل مہیب سانسوں
کی پرچھائیوں سے
زمیں کا پنڈا جلا رہے ہیں
دیا زمیں کا بجھا رہے ہیں

نظم
بھوت
وزیر آغا