چلو ہم بھی کچھ ہاتھ پاؤں ہلائیں
زمیں پر اترتی ہوئی برف کے سرد بوسوں سے خود کو بچائیں
نگاہوں میں وحشت زباں پر کڑکتے ہوئے بول لائیں
گھنے دم بدم جلتے بجھتے ہوئے بادلوں سے گزر کر
ستاروں کے جھرمٹ کو ہاتھوں کی پوروں سے دو نیم کر کے بڑھیں
برف کے اک تڑختے پگھلتے جہنم میں اتریں
سیاہی کے یخ بستہ مرقد پہ آنسو بہائیں
چٹانیں اگر باسی صدیوں کی گاڑھی گھنی گیلی بدبو میں
لتھڑی پڑی ہیں تو کیا ہے
اگر گھاس کی لاش کو برف کی ایک میلی رضائی نے
آنگن کو مردہ درختوں کی بھوبل نے ڈھانپا ہوا ہے تو کیا ہے
کہ ہم راکھ کے ڈھیر
گرتی ہوئی برف کے لجلجے نرم گالے
کسیلی سی بدبو کے بھبکے نہیں ہیں
تجھے کیا خبر ہم
زمیں کی طرح بھوری مٹی کی اک کھال اوڑھے ہوئے ہیں
اگر ہاتھ ہم کو میسر نہیں ہیں تو کیا ہے
چلو اپنی پلکوں کے نیزوں سے اس بھوری مٹی کی تہہ کو ہٹائیں
چلو تیز شعلوں کے دوزخ میں اتریں
ابلتے ہوئے تند لاوے کی موجوں میں دھونی رمائیں
نظم
بھوری مٹی کی تہہ کو ہٹائیں
وزیر آغا