تمہیں جب یاد کرتا ہوں تو اک مٹتی ہوئی دنیا
مری آنکھوں کے آئینے میں پہروں جھلملاتی ہے
کہیں دم گھٹ رہا ہے مسکراتے سرخ پھولوں کا
کہیں کلیوں کے سینے میں ہوا رک رک کے آتی ہے
کہیں کجلا گئے ہیں دن کے چمکائے ہوئے ذرے
کہیں راتوں کی ہنستی روشنی غم میں نہاتی ہے
وہی دنیا جو کل تک دل کا دامن تھام لیتی تھی
اسی دنیا کے ہر ذرے میں اب بے التفاتی ہے
تمنا اپنی ناکامی پہ کانپ اٹھتی ہے یوں جیسے
بگولے میں کوئی سوکھی سی پتی تھرتھراتی ہے
گھنے کہرے میں جیسے ڈھنکتے جاتے ہوں ہرے سبزے
یوں ہی بیتے دنوں کی شکل دھندلی پڑتی جاتی ہے
جوانی کی اندھیری رات آدھی بھی نہیں گزری
محبت کے دیئے کی لو ابھی سے تھرتھراتی ہے
نظم
بھولتی ہوئی یاد
علی جواد زیدی