پچھلی رات کا چاند دکھائی دیتا تھا کچھ یوں تاروں میں
جیسے کوئی جان بوجھ کر کود رہا ہو انگاروں میں
دھرتی سے آکاش تلک کرنوں کا سندر جال بچھا تھا
راج تھا سپنوں کا سب جگ پر چھایا ہوا اک سناٹا تھا
لہروں کی منہ زور سلوٹوں میں ندی بس گھول رہی تھی
دھیمے دھیمے مدھر سروں میں شاید کچھ بول رہی تھی
پیڑ کنارے پر بھیگی پروا سے کانپ رہے تھے تھر تھر
رہ رہ کر اک آدھ ان دیکھا پنچھی چیخ اٹھتا تھا جن پر
دور اک پربت کی اونچی چوٹی پر اک چھوٹی سی بدلی
کیا جانے پورب کی دھندلے منڈل میں کیا ڈھونڈھ رہی تھی
ایسے میں ہم دونوں اک ہلکی سی ننھی ناؤ میں بیٹھے
جھل مل جھل مل کرتے پانی کی چھاتی پر تیر رہے تھے
تیری رخ پہ پریشاں کاکل کھیل کھیل رہی تھی نرم ہوا سے
روپ میں تیرا سندر مکھڑا کہیں سہانا تھا چندرا سے
بجلی ایسا نور آنکھوں میں دکھائی دیتا تھا کچھ ایسے
چلتے ہوں دو ننھے ننھے دیپک کالی رات میں جیسے
رہ رہ کر ساری کا آنچل کاندھے پر سے ڈھلک جاتا تھا
رہ رہ کر تجھ سے کچھ کہنے کو میرا جی للچاتا تھا
لیکن رک جاتی تھی ہونٹوں پر جو بات اٹھتی تھی من میں
پریم کی چیخ لپتا الھی تھی لاج کی ان سلجھی الجھن میں
جھوم رہا تھا جاگتے سپنوں کا سنسار آنکھوں میں ایسے
اور کی موتی جھول رہے ہوں پھولوں کے جھولوں میں جیسے
الگ الگ بے چین تھا چپو ہاتھوں سے چھوٹا جاتا تھا
اور یوں میرے صبر کا پیالا رہ رہ کر چھلکا جاتا تھا
ایکا ایکی تو نے بھری اک ٹھنڈی سانس انگڑائی لے کر
چپ کی تھکن سے باز آئی تھی سر کو رکھا میرے کاندھے پر
پھر کیا تھا دل ایسے مچلا اپنے آپ کو بھول گیا میں
زور سے تجھ کو بھینچ کر اپنی باہوں میں کچھ بول اٹھا میں
اک میں کیا آکاش کے تارے بھی وہ رات نہیں بھولے ہیں
جس کو گزرے آج تو لگ بھگ چار مہینے بیت گئے ہیں
اب بھی اس کی یاد مچا دیتی ہے اک ہلچل سی من میں
ایسی رات نہیں آتی ہے پلٹ کر کیوں میرے جیون میں
نظم
بھولی بسری رات
تخت سنگھ