خوش تھی کشتی لگا کر گلے سے ہمیں
یہ ہماری ہم اس کے نگہ دار تھے
ہم مسافر سوار اس میں جتنے بھی تھے
اس کی برقی ادا کے پرستار تھے
اس کو شاید تھا معلوم اس سے فقط
سپرد تفریح کے ہم طلب گار تھے
لے گئی پل میں ان پانیوں تک ہمیں
جو تلاطم کی لہروں سے کف دار تھے
جنگلوں سے بھری سیدھی ڈھلواں پر
حسن روئیدگی کے فسوں زار تھے
دونوں جانب تٹوں پہ سفیدے کے پیڑ
چکنی چکنی سی چھالوں کی دیوار تھے
ہر تنا پھب رہا تھا ہرے سوٹ میں
سبز شاخوں کے پتے چمکدار تھے
پورے جوبن پر آئی ہوئی گھاس تھی
اونچے اونچے زمرد کے انبار تھے
جس طرف بھی کہیں برف کی اوٹ تھی
اوٹ میں سرخ پھلوں کے انگار تھے
سر نکالے ہوئے پتھروں کے کلس
مرغزاروں کے محلوں مینار تھے
مینہ کی بوندوں کے سر ہو رہے تھے قلم
تیز جھوٹ تھے یا تیز تلوار تھے
برق و باراں کا طوفاں جواں سا ہوا
برف کے ساتھ پانی رواں سا ہوا
یہ ہوا تو ہمیں یہ گماں سا ہوا
یہ مناظر تھی ان گھڑسی جن کی پھبن
پر خطر سے کسی فن کا معیار تھے
اک مہم جو مصور کا شہکار تھے
یوں تو ہم بھی مصور تھے فن کار تھے
رنگ و الفاظ کے کیف میں ڈوب کر
خود ہی کو ڈھونڈنے کے طلب گار تھے
خود ہی گرداب تھے خود ہی منجھدار تھے
دشمن جاں ہمارے ہی افکار تھے
پیچ در پیچ دل میں گرفتار تھے
ہم نہ اس پار تھے ہم نہ اس پار تھے
نظم
بھول بھلیاں
تخت سنگھ