EN हिंदी
بھوکی نسل کا ترانہ | شیح شیری
bhuki nasl ka tarana

نظم

بھوکی نسل کا ترانہ

اویس احمد دوراں

;

میں بھوکی نسل ہوں
میرے ملول و مضمحل چہرہ پہ

ٹھنڈی چاندنی کا عکس مت ڈھونڈو
مرا بے رنگ و بو چہرہ

جمی ہے ان گنت فاقوں کی جس پر دھول برسوں سے
زمیں کے چند فرعونوں کو اپنی خشمگیں نظروں سے تکتا ہے

مرے اجداد بھی
میری طرح بھوکے تھے لیکن مجھ میں اور ان میں

زمین و آسماں کا فرق ہے شاید
وہ اپنی بھوک کو تقدیر کا لکھا سمجھتے تھے

قناعت ان کا تکیہ تھا
توکل ان کا شیوہ تھا

مگر میں ایسی ہر جھوٹی تسلی کا مخالف ہوں
مقدر کے اندھیروں میں نہیں

میرا یقیں ہے روشنیٔ صبح فردا میں
میں بھوکی نسل ہوں

میرے لبوں پر نالہ و فریاد کی لے کے عوض
اک آگ ہے

تیور میں غصہ ہے
یہ وہ غصہ ہے جس سے

میرا دشمن تھرتھراتا ہے