شریر میں کوئی تڑپ سی ہوگی
یا کوئی عادت سی پڑی ہوگی
کئی دنو کی کئی چیزو کی بھوک تو ہوگی
کوئی مقصد ہوگا یا یوں ہی
زندگی ننگے پاؤں کی دوڑ ہوگی
دھوپ کو پردوں سے واپس بھیج دیا امیروں نے
وو جا کر کئی آنکھوں میں اندھیرے بھر رہی ہوگی
کچھ ہے نہیں ٹکرانے کو کیا اسی کارن
مایوسی میں لپٹی نیندیں پھیل کے سو رہی ہوگی
خوابوں میں پریاں کھینچ کے لائی جاتی ہوں گی
بے بسی چند نوالوں سے گلے اتاری ہوگی
محفلوں میں کون سی خاصیت بٹتی ہوگی
کتنی اونچائی پہ سپنے رکھے جاتے ہوں گے
کیا خوابوں کی پریبھاشا بھی پڑھائی جاتی ہوگی
آنکھوں سے بہتی ضد سے حاصل کیا ہوتا ہوگا
کیا ٹوٹنے پہ پھوٹ پھوٹ کے روتی ہوں گی
کون سے قصے ہوں گے جو خالی پیٹ ہنسی نکلتی ہوگی
بخار میں آرام کے لیے کون سے بہانے دھرتے ہوں گے
گاڑیوں کے ٹائر کے نشان سینے پہ پڑتے ہوں گے
سڑکوں پہ کئی بچپن بھوک میں دب کے مرتے ہوں گے

نظم
بھوک میں دبے بچپن
درشکا وسانی