اس نے کہا تھا چھوٹی سی فرمائش ہے!
میں نے کہا تھا بھولی بھالی خواہش ہے!
اس نے کہا تھا روح میں خارش ہوتی ہے
میں نے کہا تھا جسموں کی سازش ہوتی ہے
اس نے کہا تھا بادل کالے ہوتے ہیں
میں نے کہا تھا بجلی گوری ہوتی ہے!
اس نے کہا تھا جب دونوں ٹکراتے ہیں!!
میں نے کہا تھا پھر تو بارش ہوتی ہے!!!!
اس نے کہا تھا بارش میں چھینٹے پڑتے ہیں
میں نے کہا تھا کپڑے بھی گیلے ہوتے ہیں
اس نے کہا تھا بھیگنے والا ہے موسم
میں نے کہا بھاگ نہیں پائیں گے ہم!!
سارا عالم بھیگ رہا تھا بارش میں
اپنے اپنے ظرف میں، اپنی خواہش میں
شرابور تھے ہم دونوں رفتہ رفتہ
اندر باہر بھیگ گئے جستہ جستہ
جذبوں کا صابن، احساس کا پانی تھا
بارش کے دو بھیگے تن پر
دھوپ اترنے والی تھی
دھلا دھلا فطرت کا سارا منظر تھا
پر پھیلائے...
دو پنچھی بے سدھ تھے
غیب کی مستی میں!!
سنتے ہیں:
پھر آگ لگی تھی بستی میں!!!!!
نظم
بھیگا موسم
خورشید اکبر