مذہب کی تلوار بنا کر
خواہشوں کے اندھے گھوڑے پر سوار
میرے من آنگن کو روند ڈالا
میرے بھروسے کو سولی پر ٹانگ کر
تم نے دوسرا بیاہ رچا لیا
تمہارے سنگ گزارے پل پل کو
میں نے اپنے ماس پر کھال کی طرح منڈھ لیا تھا
تمہارے ساتھ آنچل باندھ کر
بابا کا آنگن پار کر کے
تمہارے لائے سانچے میں
میں نے پایا تھا اپنا وجود
پیار کیا ہے یہ نہیں جانتی
پر تمہارے گھر نے بڑ کے پیڑ سی چھاؤں کی تھی مجھ پر
بچایا تھا زمانے کے گناہوں کے
تیروں کی بوچھاڑ سے
اس سانچے میں رہنے کی خاطر
میں اپنے وجود کو کاٹتی چھانٹتی تراشتی رہی
تمہارے لہو کی بوند کو اپنے ماس میں جنم دیا
اولاد بھی ہم دونوں کا بندھن نہ بن سکی
بندھن کیا ہے یہ نہیں جانتی
مجھے فقط ایک سبق پڑھایا گیا تھا
تمہارا گھر میری آخری پناہ گاہ ہے
میں نے کئی بار دیکھا ہے
زمانے کی نگاہوں سے سنگسار ہوتے
طلاق یافتہ عورت کو
اس لیے بارش سے ڈری بلی کی طرح
گھر کے ایک کونے اور تمہارے نام کے استعمال پر
قناعت کیے بیٹھی رہی
جنت کیا ہے جہنم کیا ہے یہ نہیں جانتی
مگر اتنا یقین ہے
جنت بھروسے سے بالاتر نہیں
اور جہنم سوت کے قہقہوں سے بڑھ کر گراں نہیں
طعنوں اور رحم بھری نظروں سے بڑھ کر مشکل
کوئی پل صراط نہیں
کبھی کبھی سوت کا چہرہ مجھے اپنا جیسا لگتا ہے
اس کی پیشانی پر بھی
میں نے بے اعتباری کی شکنیں دیکھی ہیں
جب وہ مجھے دیکھتی ہے
خوشی اس کے سینے میں
ہاتھوں میں دبائے کبوتر کی طرح پھڑ پھڑا اٹھتی ہے
میں ان سے لڑ نہیں سکتی
ان میں تم شامل ہو
میں تم سے لڑ نہیں سکتی
مذہب قانون اور سماج تمہارے ساتھ ہیں
ریتیں رسمیں تمہارے ہتھیار ہیں
دل چاہتا ہے کہ زندگی کی کتاب سے
وہ باب ہی پھاڑ کر پھینک دوں
جو اپنے مفاد میں تم نے
میرے مقدر میں لکھا ہے
نظم
بھروسے کا قتل
عطیہ داؤد