کہیں جب سرفروشی کی
محبت استقامت کی
شہادت کی وطن کی بات چلتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
یہ دھارے رک نہیں سکتے
ستارے جھک نہیں سکتے
کنارے دیکھتے رہنا
نظارے رک نہیں سکتے
ہوا بہتی ہی رہتی ہے
سمندر سے سمندر تک
لہو دریافت کرتا ہے
نئی تحریک کا منشور
یہ کرنیں درج کرتی ہیں
ہر اک دھرتی پہ ہونے کا نیا دستور
ہر اک رستے پہ ہیں دار و رسن کے نیلگوں سائے
لہو سے آگ کی لپٹیں نکلتی ہیں
قطاروں میں در زنداں پہ ہر لمحہ
عجب سی بھیڑ رہتی ہے
یہ کیسی آگ ہے جو سرد ہونے کو نہیں آتی
یہ کیسا خواب ہے تعبیر آنکھیں چھین لیتی ہے
شجاعت قرض ہوتی ہے
محبت فرض ہوتی ہے
کسی کرنل کے قتل عام سے لشکر نہیں رکتے
صلیبوں سے نہیں ڈرتے
لہو کے دھارے میں بہتے ستارے رک نہیں سکتے
ابد کے آسمانوں سے اشارے رک نہیں سکتے
عجب ہی لوگ ہوتے ہیں
خود اپنی مٹی کی خاطر جو جان و تن لٹاتے ہیں
غضب ہی لوگ ہوتے ہیں
کہ جو تاریخ کے دھارے کے رخ کو موڑ دیتے ہیں
محبت کرنے والے لوگ پاگل لوگ ہوتے ہیں
کسی سے جو نہیں ڈرتے
یہ وہ دریا ہیں جن کی آخری منزل
ابد کا آخری ساحل
یہ وہ دریا سمندر جن کا رستہ ہے
سمندر کس سے کب تسخیر ہوتا ہے
سمندر ہے زمانہ
اور زمانہ کس سے کب زنجیر ہوتا ہے
نظم
بھگت سنگھ کے نام
فہیم شناس کاظمی