یہ جینا کیا یہ مرنا کیا کچھ بھی تو ہمارے بس میں نہیں
اک جال بچھا ہے خواہش کا اور دل ہے کہ پھیلا جاتا ہے
ہم بچنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں پھنستے جاتے ہیں
یہ ریگ روان عمر ہی کچھ ایسی ہے کہ دھنستے جاتے ہیں
جب ریت ہمارے پیروں کے نیچے سے کھسکنے لگتی ہے
دنیا کی تمنا بجھتی ہوئی آنکھوں میں سسکنے لگتی ہے
ہر سانس اکھڑنے سے پہلے سینے میں دہکتی جاتی ہے
اور دھیرے دھیرے چادر جسم و جاں کی مسکتی جاتی ہے
یہ جینا کیا یہ مرنا کیا کچھ بھی تو ہمارے بس میں نہیں
نظم
بے بسی
راشد آذر