EN हिंदी
بے بسی گیت بنتی رہتی ہے | شیح شیری
bebasi git bunti rahti hai

نظم

بے بسی گیت بنتی رہتی ہے

فہیم شناس کاظمی

;

خواب گرمی کی چھٹیوں پہ گئے
ہو گئے بند گیٹ آنکھوں کے

عشق کو داخلہ ملا ہی نہیں
خواہشیں لاکروں میں قید رہیں

جو بکے اس کے دام اچھے ہوں
زندگی ہو کہ کوئی تتلی ہو

بے ثباتی کے رنگ کچے ہیں
کون بتلائے ان زمینوں کو

جنگلوں کے گھنے درختوں میں
گر خزاں بیلے ڈانس کرتی ہو

مصر کو کون یاد کرتا ہے
کم نہیں لکھنؤ کی امراؤ

اس سے بہتر یہاں پہ ہیں فرعون
کون سا دیوتا اور کیا رعمیس

مرزا واجدؔ علی بھی کم تو نہیں
کون گریہ کرے، کرے ماتم

کون تاریخ کشت و خوں کو پڑھے
بے بسی گیت بنتی رہتی ہے

دونوں آنکھوں کو ڈھانپے ہاتھوں سے