وہ اک مسافر تھا جا چکا ہے
بتا گیا تھا کہ بے یقینوں کی بستیوں میں کبھی نہ رہنا
کبھی نہ رہنا کہ ان پہ اتنے عذاب اتریں گے جن کی گنتی عدد سے باہر
وہ اپنے مردے تمہارے کاندھوں پہ رکھ کے تم کو جدا کریں گے
تم ان جنازوں کو قریہ قریہ لیے پھروگے
فلک بھی جن سے نا آشنا ہے جنہیں زمینیں بھی رد کریں گی
وہ کہہ گیا تھا ہمیشہ ذلت سے دور رہنا
کہ بد نصیبوں کا رزق اول انہیں زمینوں سے پیدا ہوتا ہے
جن زمینوں پہ بھوری گدھوں کی نوچی ہڈی کے ریزے بکھریں
تم اپنی رائے کو استقامت کی آب دینا
جسے پہاڑوں کی خشک سنگیں بلندیوں سے خراج بھیجیں
غلام ذہنوں پہ ایسی لعنت کی رسم رکھنا
جو تیری نسلوں پھر ان کی نسلوں پھر ان کی نسلوں تلک بھی جائے
تمہیں خبر ہو شریف لوگوں کی اونچی گردن لچک سے ایسے ہی بے خبر ہے
سواد غربت میں خیمہ گاہوں کی جیسے گاڑی ہوں خشک چوبیں
کبھی نہ شانے جھکا کے چلنا
کہ پست قامت تمہارے قدموں سے اپنے قدموں کو جوڑ دیں گے
وہی نحوست تمہیں خرابوں کی پاسبانی عطا کرے گی
سراب آنکھوں کے راستوں سے تمہارے گردوں میں ریت پھینکیں گے اور سینے کو کاٹ دیں گے
وہ کہہ گیا تھا یہی وہ علت کے مارے وحشی ہیں جن کی اپنی زباں نہیں ہے
یہ جھاگ اڑاتے ہیں اپنے جبڑوں سے لجلجے کا تو گڑگڑاہٹ کا شور اٹھتا ہے
اور بدبو بکھیرتا ہے
یہی وہ بد بخت بے ہنر اور بے یقیں ہیں کہ جن کی دیت نہ خوں بہا ہے
سو ان کی قربت سے دور رہنا نجات دل کا سبب بنے گا
وہ اک مسافر تھا کہہ گیا ہے
نظم
بے یقین بستیاں
علی اکبر ناطق