EN हिंदी
بے طلب | شیح شیری
be-talab

نظم

بے طلب

محمودہ غازیہ

;

میں خواہشوں سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچ سکتی
جب تک خواہشیں مجھ سے نہ کھینچ جائیں

یہ کافی ہے اور میرے لیے سب
میری گردن پر میرے محبوب کا چہرہ سجا دو

یا میری روح کو آزاد ہو جانے دو
یہ بھی کافی ہے اور میرے لیے بہت ہے

میں اس کی خواہش سے کچھ کم ہوں یا ذرا زیادہ
ظاہر ہے گرد مجھے چھپا لیتی ہے

میری روح میرے ہونٹوں پر ہے
اڑنے کے لیے بے تاب

کیا اس کے ہونٹ مجھے امن کا سبق دیں گے؟
اور یہ بھی میرے لیے بہت ہے