EN हिंदी
بے قراری | شیح شیری
be-qarari

نظم

بے قراری

افروز عالم

;

رفتہ رفتہ اشک آنکھوں سے رواں ہونے لگے
دل لگا کر دور مجھ سے جان جاں ہونے لگے

آنکھ ان سے جب ملی تو مل گیا دل کو قرار
چاند تاروں میں کیا کرتا تھا میں ان کا شمار

دل کی دھڑکن میری الجھن بے زباں ہونے لگے
رفتہ رفتہ اشک آنکھوں سے رواں ہونے لگے

وہ سنہرا حرف تھا الجھی ہوئی تحریر کا
میں مصور تھا کسی بکھری ہوئی تصویر کا

دھیرے دھیرے پیار میں دونوں جواں ہونے لگے
رفتہ رفتہ اشک آنکھوں سے رواں ہونے لگے

برف کا موسم تھا پھر بھی آگ میں جلتے تھے ہم
راہ میں کانٹے تھے پھر بھی شوق سے چلتے تھے ہم

آج ہم اک بھولی بسری داستاں ہونے لگے
رفتہ رفتہ اشک آنکھوں سے رواں ہونے لگے