زندگی اک دور تک سنگیت تھی اب شور ہے
ہاں مگر اس شور کے بکھراؤ میں
بے محابا صوت کے ٹکراؤ میں
شاید ابھی اندوختہ کچھ زیر و بم ہوں
آؤ ہم تم
کوئی زیر و بم تلاشیں
کوئی پیچ و خم تراشیں
اور اس ترتیب کاری کی شعوری کوششوں کو
لا شعوری نغمگی کی آخری مٹتی ہوئی سی گونج سے انگیز کر کے
ایک شب
کوئی اک آہنگ دے دیں
اس سے پہلے کہ یہ شور نا تمام
صور اسرافیل کے اتمام میں کھو جائے
حشر اٹھے اور قیامت آئے
اور ہم کو جھونک دے آواز کے اک منقطع رشتے کے دوزخ میں
فیصلہ کر دے ہمارے درمیاں
اک دائمی خود نا شناسی کے جہنم کا
اس سے پہلے
آؤ ہم تم
اس خلیج نا رسائی پر
صدا کے پل بنا دیں
بے نشاں ہونے سے پہلے
اس زمیں پر آخری پہچان کی دنیا بسا لیں
نظم
بے نشاں ہونے سے پہلے
عبد الاحد ساز