سحر ہوتے کیا ہے جب بھی آغاز سفر میں نے
تو ہر اک موڑ پر ہر راہ پر ہر ایک بستی میں
یہی پوچھا ہے مجھ سے کون ہوں کیا نام ہے میرا
مری منزل کہاں ہے کون سا شہر تمنا ہے
کہ جس کی دید کا ارماں ہے جس کا سر میں سودا ہے
سوالوں کو مرے شوق سفر کی آگہی دینے
نظر اٹھتی خلا کی وسعتوں میں ڈوب کر کہتی
افق کے پار سورج کے سنہری بام سے آگے
زمین و آسماں کی سرحدیں جس جا پہ ملتی ہیں
مرا شہر تمنا ہے وہیں تک مجھ کو جانا ہے
یہ دنیا مجھ کو دیوانہ سمجھ کر مجھ پہ ہنستی ہے
نظم
بے کراں
زبیر رضوی