EN हिंदी
بے کراں وسعتوں میں تنہا | شیح شیری
be-karan wusaton mein tanha

نظم

بے کراں وسعتوں میں تنہا

وزیر آغا

;

سفر میں ہوں اور رکا کھڑا ہوں
میں چاروں سمتوں میں چل رہا ہوں مگر کہاں ہوں

وہیں جہاں سرخ روشنائی کا ایک قطرہ
کسی قلم کی کثیف نب سے ٹپک پڑا ہے

میں خود بھی شاید کسی قلم سے گرا ہوا ایک سرخ قطرہ ہوں
زندگی کی سجل جبیں پر چمکتی بندیا سی بن گیا ہوں

مگر میں بندیا نہیں ہوں شاید کہ وہ تو تقدیس کا نشاں ہے
دلوں کے دھاگوں کی اک گرہ ہے

گرہ جو صدیوں میں بننے والے حسین رشتوں کا آشرم ہے
جو آنے والے تڑپتی صدیوں کی ابتدا ہے

گرہ تو جنکشن ہے پٹریوں کا مسافروں کا نئی نویلی رفاقتوں کا
محبتوں کا اذیتوں کا

مگر میں تنہا ہوں بے کراں وسعتوں میں تنہا
سفید ماضی سفید فردا سفید یہ لمحۂ عبادت

کہ جس پہ کوئی نہیں عبارت
سفید ماتھے پہ سرخ دھبہ ہوں

ابتدا انتہا کے دھاگوں سے کٹ چکا ہوں
میں سرخ دھبہ ہوں

کپکپاتے لطیف عکسوں کا سلسلہ ہوں
تمام چہرے جو تیرے اندر سے جھانکتے ہیں

مرے ہی چہرے کی جھلکیاں ہیں
مرے ہی سینے کی دھڑکنیں ہیں

یہ تیز رنگوں کے تند دریا
جو دکھ کے کوہ گراں سے رس کر

زمیں کی بنجر اداس سی سلطنت کو چھو کر
اس ایک بے انت سرخ نقطے کے بحر ظلمات میں گرے ہیں

مرے ہی بے نام دست و پا ہیں
یہ جگمگاتی سی کہکشائیں جو ابتدا سے

خلا کی ظلمت میں قید باہر کو اڑ رہی ہیں
گرہیں بنی ہیں

وہیں کھڑی ہیں
وہیں جہاں سرخ روشنائی کا ایک قطرہ

کسی قلم کی کثیف نب سے ٹپک پڑا ہے
وہ ایک قطرہ جو میرا دل ہے

جو میرے عکسوں کا سلسلہ ہے
جو میرے ہونے سے سرخ رو ہے

جو میری پابستہ آرزو ہے