EN हिंदी
بے گھری | شیح شیری
be-ghari

نظم

بے گھری

تابش کمال

;

خواب کی سلطنت سے ادھر
اک جہاں ہے جسے آنکھ آباد کر لے تو کر لے

وہاں سائے ہی سائے ہیں
اکثر و بیشتر دھوپ میں رقص کرتے ہوئے

ریز گاری کی آواز پر دھڑکنیں تال دیتی ہیں تو جھلملاتے ہیں
آنکھوں میں خواب

(اپنا گھر اس کے دار الخلافے میں ہے)
صبح سے شام تک

نوٹ گنتی ہوئی انگلیاں یوں تھرکتی ہیں
جیسے تمناؤں کو تھپکیاں دے شب ہجر میں ایک برہن کا دل

روز خوابوں کی پونجی میں سکوں کے گرنے سے اک گونج اٹھتی ہے
گویا کہیں ٹین کی چھت پہ بارش کے قطرے پڑیں

روز اک گھر تمنا کے ملبے سے آنکھوں کے پاتال میں جھانکتا ہے
وہی بے گھری بے زمینی کا دکھ آج تک مجھ کو گھیرے ہوئے ہے

میں چاند اور سورج کی صورت فلک در فلک تیرتا ہوں
مرے خواب مجھ کو اڑائے لیے جا رہے ہیں

میں پامال ہوتی ہوئی آرزو میں کہاں تک جیوں گا