اب میں کس سے کہوں
کہ کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں
نہ حرف و لفظ نہ آواز نہ سماعت
کوئی رشتہ ناتا ہے نہیں
اک اک کر کے رشتے ناتے مٹی سے بچھڑ کے
اور پانی میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں
وہاں جانے کا وقت آ گیا ہے
ساتھ لے جانے والا پرندہ سر پر منڈلا رہا ہے
اسی لیے درختوں کی پتلیاں بالکل خاموش ہیں
معلوم ہوا کہ کوئی کسی کا تھا ہی نہیں
یا دل تو شاید محض نراشا کا ڈھیر تھا
اس ڈھیر پر پانی کی ایک بوند بھی گرنے کو تیار نہیں تھی
سفر کرنے والا برہنہ پاؤں تو دھول میں پڑا رہ گیا
میں نے شاید اسے اس لئے نہیں اٹھایا کہ
اسے کسی اور جسم میں لگایا نہیں جا سکتا تھا
نظم
بے برگ شجر
احمد ہمیش