جب کبھی شب کے طلسمات میں کھو جاتا ہوں
یا ترے حسن کی آغوش میں سو جاتا ہوں
تیری تصویر ابھرتی ہے پس پردۂ خواب
ایک ٹوٹے ہوئے بے لوث ستارے کی طرح
چیر کر سینۂ آفاق کی تاریک فضا
از راہ وفا تیری تصویر اٹھا لیتا ہوں
عارض و لب کے جواں گیت چرا لیتا ہوں
دور تک جادۂ فردا پہ مہک اٹھتے ہیں
امید کے پھول خواب فردا کے گلاب
جگمگاتے ہیں مرے دل کے چراغ
اور جب سرحد ادراک پہ سینے سے لگائے ہوئے تصویر تری
سانس لیتا ہوں ٹھہر جاتا ہوں
ناگہاں
آندھیاں چلتی ہیں اڑاتی ہوئی دھول
غم کے طوفان مچل جاتے ہیں
تیری تصویر کے ابھرے ہوئے سب نقش و نگار
جا کے بے باک اندھیروں سے لپٹ جاتے ہیں
نظم
بے باک اندھیرے
فرید عشرتی