پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
وہ سب پیاسے تھے
میلوں کی مسافت سے بدن بے حال تھا ان کا
جہاں بھی جاتے وہ دریاؤں کو سوکھا ہوا پاتے
عجب بنجر زمینوں کا سفر درپیش تھا ان کو
کہیں پانی نہ ملتا تھا
کجھوروں کے درختوں سے انھوں نے اونٹ باندھے
اور تھک کر سو گئے سارے
انھوں نے خواب میں دیکھا
کجھوروں کے درختوں کی قطاریں ختم ہوتی ہیں جہاں
پانی چمکتا ہے
وہ سب جاگے
ہر اک جانب تحیر سے نظر ڈالی
وہ سب اٹھے
مہاریں تھام کر ہاتھوں میں اونٹوں کی
کھجوروں کے درختوں کی قطاریں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں
زبانیں سوکھ کر کانٹا ہوئی تھیں
اور اونٹوں کے قدم آگے نہ اٹھتے تھے
وہ سب چیخے
بشارت دینے والے کو صدا دی
اور زمین کو پیر سے رگڑا
ہر اک جانب تحیر سے نظر ڈالی
کھجوروں کے درختوں کی قطاریں ختم تھیں
پانی چمکتا تھا!!
نظم
بشارت پانی کی
زبیر رضوی