بہت دنوں بعد
جب کبھی
ماں سے ملتا ہوں
تو باتوں ہی باتوں میں
اکثر پوچھ لیتی ہے
نماز پڑھتے ہو
جمعہ کی ہی سہی
یا پھر
عید کی
ار میں
حیلوں بہانوں کے پیچ
جنت کی گھبرائی آنکھوں میں
دوزخ کی
معدوم جھلک دیکھ
مسکراتا ہوں
کہ کیسے
تمام مامتاؤں کو سمیٹ
اس کی بے آواز
دعا
میری محافظ بن جاتی ہے
سنبھال کر رکھا
میرا معصوم بچپن
پیش کر دیتی ہے
غضب الٰہی کے آگے
اور میں
بخشش دیا جاتا ہوں
جانے کتنی بار
وہ
فردوس دے چکی ہے مجھے
نظم
بشارت
نوفل آریہ