EN हिंदी
بسنتی ترانہ | شیح شیری
basanti tarana

نظم

بسنتی ترانہ

حفیظ جالندھری

;

لو پھر بسنت آئی
پھولوں پہ رنگ لائی

چلو بے درنگ
لب آب گنگ

بجے جل ترنگ
من پر امنگ چھائی

پھولوں پہ رنگ لائی
لو پھر بسنت آئی

آفت گئی خزاں کی
قسمت پھری جہاں کی

چلے مے گسار
سوئے لالہ زار

مئے پردہ دار
شیشے کے در سے جھانکی

قسمت پھری جہاں کی
آفت گئی خزاں کی

کھیتوں کا ہر چرندہ
باغوں کا ہر پرندہ

کوئی گرم خیز
کوئی نغمہ ریز

سبک اور تیز
پھر ہو گیا ہے زندہ

باغوں کا ہر پرندہ
کھیتوں کا ہر چرندہ

دھرتی کے بیل بوٹے
انداز نو سے پھوٹے

ہوا بخت سبز
ملا رخت سبز

ہیں درخت سبز
بن بن کے سبز نکلے

انداز نو سے پھوٹے
دھرتی کے بیل بوٹے

پھولی ہوئی ہے سرسوں
بھولی ہوئی ہے سرسوں

نہیں کچھ بھی یاد
یونہی بامراد

یونہی شاد شاد
گویا رہے گی برسوں

بھولی ہوئی ہے سرسوں
پھولی ہوئی ہے سرسوں

لڑکوں کی جنگ دیکھو
ڈور اور پتنگ دیکھو

کوئی مار کھائے
کوئی کھلکھلائے

کوئی منہ چڑھائے
طفلی کے رنگ دیکھو

ڈور اور پتنگ دیکھو
لڑکوں کی جنگ دیکھو

ہے عشق بھی جنوں بھی
مستی بھی جوش خوں بھی

کہیں دل میں درد
کہیں آہ سرد

کہیں رنگ زرد
ہے یوں بھی اور یوں بھی

مستی بھی جوش خوں بھی
ہے عشق بھی جنوں بھی

اک نازنیں نے پہنے
پھولوں کے زرد گہنے

ہے مگر اداس
نہیں پی کے پاس

غم و رنج و یاس
دل کو پڑے ہیں سہنے

اک نازنیں نے پہنے
پھولوں کے زرد گہنے