EN हिंदी
بس لوٹ آنا | شیح شیری
bas lauT aana

نظم

بس لوٹ آنا

سلیم فگار

;

سچائیاں اپنے وقت میں
کبھی جی نہیں پاتیں

سو آنکھوں نے ہمیشہ
لمحوں سے دھوکے کھائے

تمہیں کیسے رخصت کروں
کہ یہ بات امام ضامن اور دعا سے

بہت آگے بہت آگے ہے
ہتھیلیوں کے گرداب پھسلتے پھسلتے

بینائی کی دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں
انگلیاں کانوں کو کہاں تک دستک سے دور رکھیں گی

دعاؤں کی چھتری میں اکثر
سوراخ رہ جاتے ہیں

میں تمہیں کون سی چادر تحفہ دوں
کہ آج کل جولاں ہے

عزت سے زیادہ کاغذ کمانے کے چکر میں ہیں
میں نے مٹھی کھول کر دیکھی

تو سب لکیروں سے زیادہ بانجھ نکلیں
میرے پاس سبز نہیں ہیں

کہ زرد پتوں کی وسعت نے خاک سے نیل تک
سرسوں کا موسم کا شت کر رکھا ہے

میرے پاس کچھ بھی نہیں
بس لوٹ آنا

کہ تمہارے آنے تک
میری آنکھیں تیرگی کی سلاخوں میں قید رہیں گی