اپنے اپنے ہی خول میں ہم تم
کیسے خود کو چھپا کے بیٹھ گئے
ہم کو اپنی انا کا پاس رہا
اور سارے خیال بھول گئے
خواب جو ہم نے ساتھ دیکھے تھے
سارے وہ کیسے تار تار ہوئے
سارے وعدے وفا کے ٹوٹ گئے
اور ارمان سب ہی خاک ہوئے
دیکھنے میں تو میں شگفتہ ہوں
تم بھی شاداب سب کو لگتے ہو
اک حقیقت مگر میں جانتی ہوں
یہ بظاہر نظر جو آتا ہے
آئنہ وہ ہمارے دل کا نہیں
ہم تو اک دوسرے کی فرقت میں
زندہ رہنا محال کہتے تھے
عکس وہ بھی ہماری ذات کا تھا
عکس یہ بھی ہماری ذات کا ہے
ہے اداسی تو چاروں سمت مگر
زیب تن کر کے خول خوشیوں کا
ہم کو اپنا بھرم بھی رکھنا ہے
چاہے غم کے پہاڑ جتنے گریں
بس انا کو بحال رکھنا ہے
نظم
بس انا کو بحال رکھنا ہے
سبیلہ انعام صدیقی