EN हिंदी
برگد سے واپسی | شیح شیری
bargad se wapsi

نظم

برگد سے واپسی

قاسم یعقوب

;

وہ بچی گم شدہ حیرت سے آثار قدیمہ والا صفحہ کھول کر
اسکول کی بک پڑھ رہی ہے

اسے معلوم ہی کب ہے
جسے نروان ملتا ہے

وہ صدیاں اوڑھ کر صفحوں میں بدھا بن کے رہتا ہے
وہ پڑھتے پڑھتے جب تصویر پر نظریں جماتی ہے

تو اس کو، آنکھ کے حلقوں میں مردہ خواہشوں کی زردیاں محسوس ہوتی ہیں
گھنے برگد کے سائے میں پڑے رہنے سے

اس کی گال پہ سورج کا بوسہ ہی نہیں ہے
اس کے سر کے بال کی سب تازگی جنگل کے سبزے میں پڑی ہے

اسے بدھا پہ رحم آیا
وہ بچی ہاتھ میں پنسل پکڑ کر سوچتی ہے

اور پھر تصویر کے اوپر
لکیریں کھینچ کر مونچھیں بناتی ہے

اور اس تبدیلی سے اندر ہی اندر مسکراتی ہے
کہ جیسے اس نے دانش کی سبھی کمزوریاں

اپنی لکیروں سے چھپا دی ہیں
اسے معلوم ہی کب ہے

کہ اس کے ہاتھ کی جنبش نے اندر کی
سبھی آلائشیں چہرے پہ رکھ دی ہیں

وہ جن کو جسم سے آزاد کر کے ایک عرصے سے تیاگی تھا
اب آثار قدیمہ والے صفحے پر 'دنایا' اور 'ستا' کے کوئی مفہوم ہی باقی نہیں ہیں

ذرا مونچھیں بنانے سے سبھی دکھ مٹ گئے ہیں
'مارگ 'کی کوئی ضرورت ہی نہیں

بدھا کپل وستو کا شہزادہ دوبارہ بن گیا ہے