آنکھیں میچے سوچ میں گم
دھونی رمائے کوئی سادھو جیسے بیٹھا ہو
بچے کھیل رہے ہیں
جن کی چیخوں سے
خاموشی کے ساکن جوہڑ میں ہلچل
جھونکے آتے ہیں
لیکن یہ چپ سادھے رہتا ہے
موت بھی شاید اس کے بڑھاپے کو چھونے سے ڈرتی ہے
اس کا تن ماضی سے بوجھل ہے
اور ہمارے دن اس کے بھاری پن کو
سہمی سہمی نظروں سے دیکھ رہے ہیں
اس کے پتوں نے کیوں ہر کونپل کو ڈھانپ رکھا ہے
اس کی شاخیں کیوں مٹی میں گھس کر جڑ بن جاتی ہیں
نظم
برگد کا پیڑ
منیب الرحمن