میرے رستے میں اک موڑ تھا
اور اس موڑ پر
پیڑ تھا ایک برگد کا
اونچا
گھنا
جس کے سائے میں میرا بہت وقت بیتا ہے
لیکن ہمیشہ یہی میں نے سوچا
کہ رستے میں یہ موڑ ہی اس لیے ہے
کہ یہ پیڑ ہے
عمر کی آندھیوں میں
وہ پیڑ ایک دن گر گیا ہے
موڑ لیکن ہے اب تک وہیں کا وہیں
دیکھتا ہوں تو
آگے بھی رستے میں
بس موڑ ہی موڑ ہیں
پیڑ کوئی نہیں
راستوں میں مجھے یوں تو مل جاتے ہیں مہرباں
پھر بھی ہر موڑ پر
پوچھتا ہے یہ دل
وہ جو اک چھاؤں تھی
کھو گئی ہے کہاں
نظم
برگد
جاوید اختر