برف کی آندھیاں
چیختی دہاڑتی
ایک ہیجان میں
شہر جاں کی فصیلوں پہ یوں
حملہ آور ہوئیں
اک دھماکہ ہوا
سب شجر گر گئے
ہر مکاں ڈھے گیا
در دریچوں کے ٹکڑے ہوئے
جا بجا آب جو منجمد ہو گئی
ہر گلی یخ سفیدی میں یوں چھپ گئی
برف کی ریت کا ڈھیر سارا نگر ہو گیا
اور اس سے تراشی گئی
اک چمکتی ہوئی برف کی مورتی
کام آتی ہے بچوں کے ہر کھیل میں!!
نظم
برف کی مورتی
پروین شیر