برف ہر آن گرے جاتی ہے
بام و در کوچہ و میداں چپ ہیں
رات کے سایۂ لرزاں چپ ہیں
کوئی موٹر کبھی بھولے سے گزر جاتی ہے
ہر قدم گنتی ہوئی
اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے
ورنہ ہر سمت بس اک آہنی خاموشی ہے
کوئی آواز نہ سرگوشی ہے
اور یہ دل بھی کہ تھی گرمئ بازار جہاں
آج مدت سے بیابان کی صورت چپ ہے
زندگی ہے کہ کسی طور کٹے جاتی ہے
برف ہر آن گرے جاتی ہے
یہ سماں برف سے ڈھک جائے گا
راہرو راستہ چلتے ہوئے تھک جائے گا
عمر رفتہ کے خط و خال نہاں
کوئی مشکل ہی سے پہچانے گا
راز سربستہ رہیں گے دل میں
کس کو غم ہے کہ انہیں جانے گا
وقت کی گرتی ہوئی برف گرے جائے گی
ایک دھندلائی ہوئی رات کبھی آئے گی
زندگی یوں ہی گزر جائے گی
نظم
برف باری
منیب الرحمن