یہیں تو کہیں پر
تمہارے لبوں نے
مرے سرد ہونٹوں سے برفیلے ذرے چنے تھے
اسی پیڑ کی چھال پر ہاتھ رکھ کر
ہم اک دن کھڑے تھے
یہیں برف باری میں ہم لڑکھڑاتے ہوئے جا رہے تھے
بہک تازہ بوسوں کی سر میں سمائے
ہم آغوشی جسم و جاں کے نشے میں
گئی برف باری کی رت
اور پگھلتی ہوئی برف بھی بہہ گئی سب
یہاں کچھ نہیں اب
کہ ہر شے نئی ہے
ہٹا کر ردا برف کی گھاس لہرا رہی ہے
ہری پتیوں کی گھنی ٹہنیوں میں
ہوا جب چلے تو
گئے موسموں سے گزرتی
ہماری ہنسی گونجتی ہے
نظم
برف باری کی رت
فہمیدہ ریاض