EN हिंदी
بقا | شیح شیری
baqa

نظم

بقا

ثروت محی الدین

;

جو تنہائی کے کچھ لمحے
کبھی آ جائیں ہاتھوں میں

تو مٹھی بھینچ کر اپنی
چمکتے جگنوؤں کی روشنی جیسے یہ پل

اپنی ہتھیلی پر سجا لینا
کہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں

کتنے قیمتی لمحے
جو تنہائی کی وحشت سے

نکل جانے کی عجلت میں
ہم اکثر چھو نہیں پائے

اتر کر روح کی گہرائیوں میں
روشنی بھرنے سے پہلے ہی

جھٹک کر ہم جنہیں
پھر لوٹ آتے ہیں

اسی بے مہر ہنگاموں کی دنیا میں
جہاں ہر پل ادھورا ہے

جہاں ہر ساتھ سایہ ہے
اندھیرے اس نگر میں

ان گنت صدیاں بتانے میں
کبھی مل جائیں کچھ لمحے

تو مٹھی بھینچ کر اپنی
چمکتے جگنوؤں کی روشنی جیسے یہ پل

اپنی ہتھیلی پر
سجا لینا