EN हिंदी
بنجارہ | شیح شیری
banjara

نظم

بنجارہ

جاوید اختر

;

میں بنجارہ
وقت کے کتنے شہروں سے گزرا ہوں

لیکن
وقت کے اس اک شہر سے جاتے جاتے مڑ کے دیکھ رہا ہوں

سوچ رہا ہوں
تم سے میرا یہ ناتا بھی ٹوٹ رہا ہے

تم نے مجھ کو چھوڑا تھا جس شہر میں آ کر
وقت کا اب وہ شہر بھی مجھ سے چھوٹ رہا ہے

مجھ کو وداع کرنے آئے ہیں
اس نگری کے سارے باسی

وہ سارے دن
جن کے کندھے پر سوتی ہے

اب بھی تمہاری زلف کی خوشبو
سارے لمحے

جن کے ماتھے پر روشن
اب بھی تمہارے لمس کا ٹیکا

نم آنکھوں سے
گم سم مجھ کو دیکھ رہے ہیں

مجھ کو ان کے دکھ کا پتا ہے
ان کو میرے غم کی خبر ہے

لیکن مجھ کو حکم سفر ہے
جانا ہوگا

وقت کے اگلے شہر مجھے اب جانا ہوگا
وقت کے اگلے شہر کے سارے باشندے

سب دن سب راتیں
جو تم سے ناواقف ہوں گے

وہ کب میری بات سنیں گے
مجھ سے کہیں گے

جاؤ اپنی راہ لو راہی
ہم کو کتنے کام پڑے ہیں

جو بیتی سو بیت گئی
اب وہ باتیں کیوں دہراتے ہو

کندھے پر یہ جھولی رکھے
کیوں پھرتے ہو کیا پاتے ہو

میں بے چارہ
اک بنجارہ

آوارہ پھرتے پھرتے جب تھک جاؤں گا
تنہائی کے ٹیلے پر جا کر بیٹھوں گا

پھر جیسے پہچان کے مجھ کو
اک بنجارہ جان کے مجھ کو

وقت کے اگلے شہر کے سارے ننھے منے بھولے لمحے
ننگے پاؤں

دوڑے دوڑے بھاگے بھاگے آ جائیں گے
مجھ کو گھیر کے بیٹھیں گے

اور مجھ سے کہیں گے
کیوں بنجارے

تم تو وقت کے کتنے شہروں سے گزرے ہو
ان شہروں کی کوئی کہانی ہمیں سناؤ

ان سے کہوں گا
ننھے لمحو!

ایک تھی رانی
سن کے کہانی

سارے ننھے لمحے
غمگیں ہو کر مجھ سے یہ پوچھیں گے

تم کیوں ان کے شہر نہ آئیں
لیکن ان کو بہلا لوں گا

ان سے کہوں گا
یہ مت پوچھو

آنکھیں موندو
اور یہ سوچو

تم ہوتیں تو کیسا ہوتا
تم یہ کہتیں

تم وہ کہتیں
تم اس بات پہ حیراں ہوتیں

تم اس بات پہ کتنی ہنستیں
تم ہوتیں تو ایسا ہوتا

تم ہوتیں تو ویسا ہوتا
دھیرے دھیرے

میرے سارے ننھے لمحے
سو جائیں گے

اور میں
پھر ہولے سے اٹھ کر

اپنی یادوں کی جھولی کندھے پر رکھ کر
پھر چل دوں گا

وقت کے اگلے شہر کی جانب
ننھے لمحوں کو سمجھانے

بھولے لمحوں کو بہلانے
یہی کہانی پھر دہرانے

تم ہوتیں تو ایسا ہوتا
تم ہوتیں تو ویسا ہوتا