EN हिंदी
''بنگال کی رقاصہ'' | شیح شیری
bangal ki raqqasa

نظم

''بنگال کی رقاصہ''

فرقت کاکوروی

;

ناچیے ناچیے پائل کے بغیر
جسم عریاں ہی رہے

شعلہ افشاں ہی رہے
ناچیے ناچیے

بھوک اور موت کا رقص
میرے بنگال کا رقص

ناچیے سوچتی کیا ہیں، اٹھیے
آپ بنگال سے کب آئی ہیں

نغمہ و رقص کا پیکر بن کر
جسم کو بیچئے پتھر بن کر

ناچیے ناچیے
میں پاگل ہوں

یوں ہی بکا کرتا ہوں