EN हिंदी
بنارس | شیح شیری
banaras

نظم

بنارس

ریاض لطیف

;

بھٹکتی ہوئی وقت کی آتمائیں
ترے گھاٹ کے پتھروں کی زباں سے

یگوں کی صداؤں کی صورت ابھر کر
گھلی جا رہی ہے بجھے پانیوں میں

تری سانس کی شاہراہوں پر پھوٹی
وہی تنگ گلیاں، وہ گلیوں میں گلیاں!

کہ جیسے رگوں کا بنے جال کوئی
جہاں لاکھ بھٹکو، نہ کوئی سفر ہو

سفر فاصلہ ہے، سفر مرحلہ ہے
یہیں پر حیات اور یہیں پر فنا ہے

اسی مرحلے سے ،اسی فاصلے سے
اک امکان بن کر جو بہتا ہے پانی

سبھی اپنی اپنی قدامت کے آثار
دھیرے سے اس میں بہانے لگے ہیں

سبھی اپنی فلک بوس تنہائی
ترے افق پر سجانے لگے ہیں

کوئی راگ خاموش گانے لگے ہیں
مقدس بیابان، جسموں کے مرکز!

تری روح کے بے کراں ،سرد کونے میں
صدیاں غلاظت کیے جا رہی ہیں

بنارس تری سب مجرد ادائیں
حسیں موت پا کر جیے جا رہی ہے!