سمندر بولتا ہے
سمندر اپنی پر اسرار موجوں کی زباں میں بولتا ہے
سمندر کی صدائیں چیر دیتی ہیں شب تاریک کی چادر
ابل پڑتی ہیں
تسلسل اور تواتر کے دوائر میں تھرکتی ہیں
سروں کے دانے اک تسبیح بن جاتے ہیں ''لے'' کے نرم ہاتھوں میں
جو اس آواز کے جادو کے بس میں ہوتے جاتے ہیں
سمندر کا کنارا سلیٹ ہے جس پر
امڈتی ڈوبتی لہریں بکھر کر چھوڑ جاتی ہیں
سمندر چھین کے اقلیدسی خاکے
عجب انداز کی تجریدی تصویریں
موہن جوداڑو سے پہلے کے رسم الخط کی تحریریں
پڑے ہیں گیٹ وے آف انڈیا کے فرش پر بے گھر بھکاری
ادھر ہیں کچھ جواری
ادھر اک ہپی لڑکی اپنے ہپی دوست کے پہلو میں سمٹی
چلم کا دم لگاتی ہے
سراغ جنت الموط کے طالب ہیں دونوں ایک سادھو سے
حشیشی نشے کے دریا میں غوطے کھا رہے ہیں
حشیشی نشے ہی کی موج ہے گویا سمندر کی صدا بھی
سمندر کی سیاہی پر وہ پیلی روشنی کے پھول
جہازوں نے بکھیرے ہیں
اندھیرے میں نظر آتا نہیں جن کا کوئی مستول
جہاز آرام کرتے ہیں
جہازی شہر کے عشرت کدوں میں غوطہ زن ہوں گے
ہجوم حشر ساماں کے سمندر میں
جہازی چند قطروں کی طرح گھل مل گئے ہوں گے
یہاں تو نارسی سس بھی کہیں بھی خود گرفتہ رہ نہیں سکتا
سمندر چھیڑتا ہے ساحرانہ سمفنی جس میں
نواجل دیوتاؤں کے ازل آثار شنکھوں کی
نواجل دیویوں کے مور پنکھوں کی
صدا آپس میں دھکا مارتی منہ زور موجوں کی
صدا ساحل کی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی پر شور موجوں کی
صدا اس شہر کی جو نشے کے عالم میں جاری اور ساری ہے
صدا اس شہر کی جس کے مقدر میں ہے روز و شب کی بے داری
صدا اس شہر کی جس میں درختوں اور پرندوں سے زیادہ آدمی ہوں گے
صدا اس شہر کی جس میں کہ انسانوں کے چھتے آسماں چھوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
ابل پڑتا ہے دروازوں سے گلیوں اور سڑکوں کے مہانوں سے
اک آدم زاد چیونٹی دل
جہاں ہر دم بلا رفتار کاروں اور بسوں کی ہم نوا بن کر
مشینیں عہد حاضر کا قصیدہ پڑھتی رہتی ہیں
سمندر کے کنارے کا مشینی شہر سازینہ ہے
جس پر آتش و آہن کے نغمے رقص کرتے ہیں
سمندر کے کنارے مرد و زن کا اک سمندر اور بھی ہے
سمندر کی صدا میں اس سمندر کی صدائیں ڈوب جاتی ہیں
بے کرانی کی صدا میں
نظم
بمبئی رات سمندر
عمیق حنفی