یہ تضاد جان و جسد جسے
تو وصال کہہ لے فراق میں
تو نشاط کہہ لے مراق میں
تو رواق کہہ لے کہ بحر و بر
میں مذاق کہہ لوں کہ خیر و شر
تیرے میرے کہنے میں کچھ نہیں
کہ ترا یقین مرا گماں
کہ مرا گمان ترا یقیں
ترے درک و ہوش و حواس کی
مرے وجد و وہم و قیاس کی
یہی ایک پل تو اساس ہے
یہی ایک پل ترے پاس ہے
یہی ایک پل مرے پاس ہے
اسی ایک پل کو مرور ہے
اسی ایک پل کو دوام ہے
اسی ایک پل کو قیام ہے
اسی ایک پل کو سلام ہے
نہ حیات ازل نہ اجل ابد
یہی پل ازل یہی پل ابد!
نظم
بین العدمین
عزیز قیسی