بہت شور ہے
ماتحت لڑکیاں میرے زانو پہ سجدہ کریں
خوف آلودگی شور و شر کی پذیرائی میں رو پڑے
یہ زمینیں سیہ نسل گھوڑوں کی آواز سے جاگتی ہیں
چشم شب کور ہر چاندنی رات میں ایک جلسہ کرے گی
زمیں فیل بے زور کی طرح پٹتی رہی ہے
انہی ساعتوں میں بشرط سکندر کوئی آئنے کے برابر ملے گا
وہ ہنستی ہے اور سایۂ عافیت کے تصور کو مجروح کرتی ہے
اسے فیل بے زور کے سامنے ڈال دو
اس کے چہرے کو ٹوٹے ہوئے آئنے سے مسخر کرو
وہ ہنستی ہے اور گریۂ نیم شب کے سمندر پہ اپنا علم کھولتی ہے
ہاتھ جل مکڑیوں سے کریدے ہوئے
پاؤں میں گھاس لپٹی ہوئی
عافیت ہے سمندر کی بہتی ہوئی گھاس میں
عافیت ہے سمندر کی آواز میں
شور ہے
شور میں عافیت
ماتحت لڑکیو میرے زانو پہ سجدہ کرو
یہ زمینیں سیہ نسل گھوڑوں کی آواز سے جاگتی ہیں
نظم
بہت شور ہے
محمد انور خالد