بہت قریب ہو تم پھر بھی مجھ سے کتنی دور
کہ دل کہیں ہے نظر ہے کہیں کہیں تم ہو
وہ جس کو پی نہ سکی میری شعلہ آشامی
وہ کوزۂ شکر و جام انگبیں تم ہو
مرے مزاج میں آشفتگی صبا کی ہے
ملی کلی کی ادا گل کی تمکنت تم کو
صبا کی گود میں پھر بھی صبا سے بیگانہ
تمام حسن و حقیقت تمام افسانہ
وفا بھی جس پہ ہے نازاں وہ بے وفا تم ہو
جو کھو گئی ہے مرے دل کی وہ صدا تم ہو
بہت قریب ہو تم پھر بھی مجھ سے کتنی دور
حجاب جسم ابھی ہے حجاب روح ابھی
ابھی تو منزل صد مہر و ماہ باقی ہے
حجاب فاصلہ ہائے نگاہ باقی ہے
وصال یار ابھی تک ہے آرزو کا فریب
نظم
بہت قریب ہو تم
علی سردار جعفری