EN हिंदी
بہت دنوں کی بات ہے۔۔۔۔۔ | شیح شیری
bahut dinon ki baat hai

نظم

بہت دنوں کی بات ہے۔۔۔۔۔

سلام ؔمچھلی شہری

;

بہت دنوں کی بات ہے
فضا کو یاد بھی نہیں

یہ بات آج کی نہیں
بہت دنوں کی بات ہے

شباب پر بہار تھی
فضا بھی خوش گوار تھی

نہ جانے کیوں مچل پڑا
میں اپنے گھر سے چل پڑا

کسی نے مجھ کو روک کر
تری ادا سے ٹوک کر

کہا تھا لوٹ آئیے
مری قسم نہ جائیے

نہ جائیے نہ جائیے
مجھے مگر خبر نہ تھی

ماحول پر نظر نہ تھی
نہ جانے کیوں مچل پڑا

میں اپنے گھر سے چل پڑا
میں چل پڑا میں چل پڑا

میں شہر سے پھر آ گیا
خیال تھا کہ پا گیا

اسے جو مجھ سے دور تھی
مگر مری ضرور تھی

اور اک حسین شام کو
میں چل پڑا سلام کو

گلی کا رنگ دیکھ کر
نئی ترنگ دیکھ کر

مجھے بڑی خوشی ہوئی
میں کچھ اسی خوشی میں تھا

کسی نے جھانک کر کہا
پرائے گھر سے جائیے

مری قسم نہ آئیے
نہ آئیے نہ آئیے

وہی حسین شام ہے
بہار جس کا نام ہے

چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
نہ جانے جاؤں گا کدھر

کوئی نہیں جو ٹوک کر
کوئی نہیں جو روک کر

کہے کہ لوٹ آئیے
مری قسم نہ جائیے

بہت دنوں کی بات ہے
فضا کو یاد بھی نہیں

یہ بات آج کی نہیں
بہت دنوں کی بات ہے