بہت دنوں بعد
تیرے خط کے اداس لفظوں نے
تیری چاہت کے ذائقوں کی تمام خوشبو
مری رگوں میں انڈیل دی ہے
بہت دنوں بعد
تیری باتیں
تری ملاقات کی دھنک سے دہکتی راتیں
اجاڑ آنکھوں کے پیاس پاتال کی تہوں میں
وصال وعدوں کی چند چنگاریوں کو سانسوں کی آنچ دے کر
شریر شعلوں کی سرکشی کے تمام تیور
سکھا گئی ہیں
ترے مہکتے مہین لفظوں کی آبشاریں
بہت دنوں بعد پھر سے
مجھ کو رلا گئی ہیں
بہت دنوں بعد
میں نے سوچا تو یاد آیا
کہ میرے اندر کی راکھ کے ڈھیر پر ابھی تک
ترے زمانے لکھے ہوئے ہیں
سبھی فسانے لکھے ہوئے ہیں
بہت دنوں بعد
میں نے سوچا تو یاد آیا
کہ تیری یادوں کی کرچیاں
مجھ سے کھو گئی ہیں
ترے بدن کی تمام خوشبو
بکھر گئی ہے
ترے زمانے کی چاہتیں
سب نشانیاں
سب شرارتیں
سب حکایتیں سب شکایتیں جو کبھی ہنر میں
خیال تھیں خواب ہو گئی ہیں
بہت دنوں بعد
میں نے سوچا تو یاد آیا
کہ میں بھی کتنا بدل گیا ہوں
بچھڑ کے تجھ سے
کئی لکیروں میں ڈھل گیا ہوں
میں اپنے سگریٹ کے بے ارادہ دھوئیں کی صورت
ہوا میں تحلیل ہو گیا ہوں
نہ ڈھونڈھ میری وفا کے نقش قدم کے ریزے
کہ میں تو تیری تلاش کے بے کنار صحرا میں
وہم کے بے اماں بگولوں کے وار سہہ کر
اداس رہ کر
نہ جانے کس رہ میں کھو گیا ہوں
بچھڑ کے تجھ سے تری طرح کیا بتاؤں میں بھی
نہ جانے کس کس کا ہو گیا ہوں
بہت دنوں بعد
میں نے سوچا تو یاد آیا
نظم
بہت دنوں بعد
محسن نقوی