دہکتی آگ میں پگھل کے
قطرہ قطرہ
گر رہی ہیں چوڑیاں
یہ جشن آتشیں ہے کیا بہار کا
کہ جس کی درد ناک چیخ سے لرز رہا ہے آسماں
تمام رنگ و بو کے سلسلے
یہ کھیت پھول ڈالیاں
جھلس جھلس کے سب ہوئے برہنہ اور بے زباں
افق پہ درد سے لکھے حروف
کب سے ہیں لہو میں یوں ہی تر بہ تر
یہ حادثات نو بہ نو
کبھی نہ رک سکیں اگر
تو وقفہ ہی کوئی ملے قرار کا
یہ طے کریں
وہ کون ہے چکائے گا جو قرض اس بہار کا
نظم
بہار کا قرض
صوفیہ انجم تاج