EN हिंदी
بگولا | شیح شیری
bagula

نظم

بگولا

مصطفیٰ ارباب

;

میں
ایک بگولے میں رہتا ہوں

مجھے نہیں معلوم
میں اس کے اندر کیسے آ گیا

بہت تیز گھومتا ہے یہ
ایک پل بھی نہیں رکتا

تنہا کر دیتا ہے
یہ بگولا

کسی کو بلا بھی نہیں سکتے
اس بگولے کے اندر

ایک چکر میں رہتے ہوئے
کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا

پتا ہی نہیں چلتا
بگولا خوشی کا ہے یا غم کا

ایک طرف ہو جاؤ
میں

تمہارے قریب سے گزر رہا ہوں