جون کا تپتا مہینہ تمتماتا آفتاب
ڈھل چکا ہے دن کے سانچے میں جہنم کا شباب
دوپہر اک آتش سیال برساتی ہوئی
سینۂ کہسار میں لاوا سا پگھلاتی ہوئی
وہ جھلستی گھاس وہ پگڈنڈیاں پامال سی
نہر کے لب خشک سے ذروں کی آنکھیں لال سی
چلچلاتی دھوپ میں میدان کو چڑھتا بخار
آہ کے مانند اٹھتا ہلکا ہلکا سا غبار
دیکھ وہ میدان میں ہے اک بگولا بے قرار
آندھیوں کی گود میں ہو جیسے مفلس کا مزار
چاک پر جیسے بنائے جا رہے ہوں زلزلے
یا جنوں طے کر رہا ہو گردشوں کے مرحلے
ڈھالنا چاہے زمیں جس طرح کوئی آسماں
جیسے چکر کھا کے نکلے توپ کے منہ سے دھواں
مل رہا ہو جس طرح جوش بغاوت کو فراغ
جنگ چھڑ جانے پہ جیسے ایک لیڈر کا دماغ
خشمگیں ابرو پہ ڈالے خاک آلودہ نقاب
جنگلوں کی راہ سے آئے صفیر انقلاب
یوں بگولے میں ہیں تپتے سرخ ذرے بے قرار
جس طرح افلاس کے دل میں بغاوت کے شرار
کس قدر آزاد ہے یہ روح صحرا یہ بھی دیکھ
کس طرح ذروں میں ہے طوفان برپا یہ بھی دیکھ
اٹھ بگولے کی طرح میدان میں گاتا نکل
زندگی کی روح ہر ذرے میں دوڑاتا نکل
نظم
بگولا
جاں نثاراختر