میں سوچتا ہوں
میں ایک انساں ہوں ایک مشت غبار ہوں میں
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا
کہ ایک آواز سرسرائی فضا کی خاموش وسعتوں میں
میں چونک اٹھا
پلٹ کے دیکھا
کوئی ہوائی جہاز پرواز کر رہا تھا
جو لمحہ لمحہ بلندیوں کی طرف رواں تھا
میں اس کو تکتا رہا مسلسل
نہ جانے کب تک
نہ جانے اس لمحۂ گریزاں کے تنگ دامن میں
کتنی صدیاں سمٹ گئی تھیں
نہ جانے میری نظر میں کتنے نئے افق جگمگائے
کتنے ہی چاند سورج ابھر کے ڈوبے
کتنے ہی چاند سورج ابھر کے ڈوبے
نہ جانے وہ کون سا جہاں تھا
زمیں-- کہ پیروں تلے کوئی فرش زر ہو جیسے
فلک--- کہ سر پر ردائے آب گہر ہو جیسے
فضا--- منور
ہوا--- معطر
نفس نفس میں بسی ہوئی نکہت گل تر
خلاؤں میں مشتری و زہرہ کا رقص جاری
تمام عالم پہ ہلکا ہلکا سرور طاری
نہ جانے میں کس خیال میں گم
کس ابر پارے پہ اڑ رہا تھا
غرور سے سر بلند کر کے ہر اک ستارے کو دیکھتا تھا
کہ ایک دل دوز چیخ گونجی فضا کی خاموش وسعتوں میں
میں چونک اٹھا
پلٹ کے دیکھا
گلی سے اک ہڈیوں کا ڈھانچہ گزر رہا تھا
جو چیخ کر ایک اک سے کہتا تھا
''ایک روٹی--- خدا تمہارا بھلا کرے گا''
نظم
بگولہ
حمایت علی شاعرؔ