خورشید وہ دیکھو ڈوب گیا ظلمت کا نشاں لہرانے لگا
مہتاب وہ ہلکے بادل سے چاندی کے ورق برسانے لگا
وہ سانولے پن پر میداں کے ہلکی سی صباحت دوڑ چلی
تھوڑا سا ابھر کر بادل سے وہ چاند جبیں جھلکانے لگا
لو پھر وہ گھٹائیں چاک ہوئیں ظلمت کا قدم تھرانے لگا
بادل میں چھپا تو کھول دیے بادل میں دریچے ہیرے کے
گردوں پہ جو آیا تو گردوں دریا کی طرح لہرانے لگا
سمٹی جو گھٹا تاریکی میں چاندی کے سفینے لے کے چلا
سنکی جو ہوا تو بادل کے گرداب میں غوطے کھانے لگا
غرفوں سے جو جھانکا گردوں کے امواج کی نبضیں تیز ہوئیں
حلقوں میں جو دوڑا بادل کے کہسار کا سر چکرانے لگا
پردہ جو اٹھایا بادل کا دریا پہ تبسم دوڑ گیا
چلمن جو گرائی بدلی کی میدان کا دل گھبرانے لگا
ابھرا تو تجلی دوڑ گئی ڈوبا تو فلک بے نور ہوا
الجھا تو سیاہی دوڑا دی سلجھا تو ضیا برسانے لگے
کیا کاوش نور و ظلمت ہے کیا قید ہے کیا آزادی ہے
انساں کی تڑپتی فطرت کا مفہوم سمجھ میں آنے لگا
نظم
بدلی کا چاند
جوشؔ ملیح آبادی